Story 1
سوکھی روٹی کو پانی میں ڈبو کر وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ندا سیڑھیوں پر بیٹھے سر دیوار کے ساتھ ٹکائے خیالات کی دنیا میں مگن تھی۔
کہ ثوبیہ کے گلاس گرانے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔
کیا ہوا ثوبیہ ؟ تم پاگل ہو کیوں پانی سے بھرا پیالہ زمین پر دے مارا ہے ؟؟
ثوبیہ: مجھ سے نہیں کھائی جاتی یہ سوکھی روٹی ۔ آپ کھائیں.
ندا : تو مت کھاؤ اگر بھوک نہیں ہے۔ لیکن اس طرح تو نہیں کرتے نا گڑیا.
ثوبیہ غصے سے بولی: کیوں نہیں کرتے؟ امیروں کے تو مزے ہیں جب دل چاہا پیٹ پوجا کر لی ۔ جب دل چاہا رنگا رنگ کھانوں سے میز سجا لی اور اک یہ غریب خانہ ہے جہاں مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے ۔
ندا نے ثوبیہ کو ٹوکا۔
ارے گڑیا اللّہ کی تقسیم تو بڑی منصفانہ ہے ۔ تمام مخلوقات کا رزق اس کے پلے ہے۔ تم ابھی اسے میرے لیے رکھ دو رات کو میرے حصے کی تم کھا لینا ۔
ثوبیہ فوراً بولی : لیکن آپی آپ سڑک کے اُس پار شاندار کوٹھی میں بسنے والوں کو نہیں دیکھتی کیسے عیش کرتے ہیں۔ مزے میں زندگی گزار رہیں ہیں ۔ اور ایک ہم ۔۔۔۔۔۔
ندا اب اُسے گھور رہی تھی۔
ثوبیہ اتنی مایوس مت ہوا کرو۔ ہر انسان اپنی اپنی جنگ لڑ رہا ہے جن کو تم نے مزے کرنے والا کہا ہے ۔ ان کے لیے بھی زندگی مشکل ہے ۔ ان کی بھی آزمائش ہوتی ہے ۔
ثوبیہ سے چپ نہ رہا گیا : کہاں اور کب ہوتی ہے ؟
وہ کبھی بھوکے سوئے ہیں ؟
انہوں نے کبھی سوکھی روٹی کھائی ہے ؟؟
وہ کبھی زمین پر صرف پٹھی ہوئی چٹائی ڈال کر سوئے ہیں؟؟
ندا : وہ نہیں سوئے ، انہوں نے بھوک نہیں دیکھی انہوں نے سوکھی روٹی نہیں کھائی ۔
لیکن کیا تم جانتی ہو ان میں سے اکثر بیڈ پر بھی سو نہیں پاتے۔ اکثر تو تنہائی سے مر رہے ہوتے ہیں۔ کھانا بہت ہوتا ہے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا وقت نہیں ملتا ۔ دولت ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی مشکلات ان کے لیے بھی ہیں۔ دولت ہر چیز خرید سکتی ہوتی تو بچے خالق کو تو سب بھول جاتے ۔ زندگی کی بھاگ دوڑ بڑی زبردست ہستی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے منصوبے ہمارے لیے بہترین ہیں ۔
ثوبیہ :پر وہ ہم سے زیادہ تو مشکلات برادشت نہیں کرتے نا ؟؟
ندا : زندگی امتحان ہے گڑیا ۔ ان کا اور ہمارا پرچہ الگ ہے بلکہ ہم سب کا ایک دوسرے سے الگ ہے پھر تم کیوں بضد ہو ان سے اپنے پرچے کو ملانے پر ؟
جبکہ اللّہ ہر چیز پر اتنا ہی بوجھ لادتا ہے جتنا اٹھا سکنے کی وہ طاقت رکھتا ہے۔
اور میری گڑیا تو بہادر ہے ۔ اللّہ کے پیاری بندی ہے۔
تو اللّہ تمہیں آزما رہا ہے تاکہ اس کی بندی ہلکی ہو جائے۔
ثوبیہ کچھ سمجھنے والے انداز سے اس کے قریب سیڑھی پر آ بیٹھی اور آہستہ سے بولی : آپ کا دل نہیں کرتا ہم بھی مہنگے اور لذیز کھانے کھائیں؟؟
ندا : کرتا ہے پھر سوچتی ہوں ۔ اللّہ نے آج کے لیے یہی رزق لکھا ہے کل کی امید رکھ لیتی ہوں کہ کل اچھا ہوگا۔
ثوبیہ : اور کل اس سے بھی زیادہ پتلی دال کھانے کو ملتی ہے، وہ مایوسی سے بولی۔
ندا : تو کیا ہوا گڑیا ملتی تو ہے۔ اللّہ کا احسان ہے ۔ وہ نہ چاہے تو ہم چاہ بھی نہیں سکتے ۔ کھانا سامنے ہو اور کیا پتہ کھانے کی طاقت چھین لی جائے۔ اور کیا ۔پتہ اتنا عطا کرے کہ سمیٹا نہ جائے۔
اللّہ کی تقسیم سے راضی ہو جاؤ گڑیا۔
اس کے قانون نا انصافی نہیں کرتے ہم بندے جلد بازی کر جاتے ہیں۔
کوشش کے بعد توکل کر کے بیٹھ جانا چاہیے ۔ کوشش کا صلہ خود تم تک آئے گا ۔
اب یہ میرے لیے ڈھانپ کر رکھ دو۔
ثوبیہ: نہیں میں کھا لیتی ہوں آپ کا حصہ مجھے نہیں کھانا میرے لیے اللّہ اچھا سا کھانا کل کے لیے لکھ دیں گے۔ اور پیالہ اٹھائے باہر نکل آئی ۔کائنات ارشد🖤
https://m.facebook.com/groups/urdu.group/permalink/10158132290543019/
Comments
Post a Comment